نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے

نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے

محبت چاہئے تھی بس محبت چاہئے ہے

سہا جاتا نہیں ہم سے غم ہجر مسلسل

ذرا سی دیر کو تیری رفاقت چاہئے ہے

ترا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں

سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہئے ہے

کیا ہے تو نے جب ترک تعلق کا ارادہ

ہمیں بھی فیصلہ کرنے کی مہلت چاہئے ہے

یہ کیوں کہتے ہو راہ عشق پر چلنا ہے ہم کو

کہو کہ زندگی سے اب فراغت چاہئے ہے

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل

سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

غم جاناں کے بھی کچھ دیر تو ہم ناز اٹھا لیں

غم دوراں سے تھوڑے دن کی رخصت چاہئے ہے

ہر اک اپنی ضرورت کے تحت ہم سے ہے ملتا

ہمیں بھی اب کوئی حسب ضرورت چاہئے ہے

ہے جب سے منعکس چہرہ بدلنے کا وہ منظر

ہماری آئنہ آنکھوں کو حیرت چاہئے ہے

جو نکلیں عالم وحشت سے پھر کچھ اور سوچیں

خرد سے رابطے رکھنے کو فرصت چاہئے ہے

(751) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Na Daulat Ki Talab Thi Aur Na Daulat Chahiye Hai In Urdu By Famous Poet Farhat Nadeem Humayun. Na Daulat Ki Talab Thi Aur Na Daulat Chahiye Hai is written by Farhat Nadeem Humayun. Enjoy reading Na Daulat Ki Talab Thi Aur Na Daulat Chahiye Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Farhat Nadeem Humayun. Free Dowlonad Na Daulat Ki Talab Thi Aur Na Daulat Chahiye Hai by Farhat Nadeem Humayun in PDF.