کالا

کالا حد سے بھی کالا تھا

اتنا کالا جتنی تیری سوچ

اتنا کالا جتنی تیرے دل کی کالک

کون تھا کالا

کالا کالا سوچتا جاتا

کھرچ کھرچ کر نوچتا جاتا

اپنا ہونا کھوجتا جاتا

جملوں کی بدبو کے اندر

اپنی خوشبو سونگھتا جاتا

اپنی سگریٹ پھونکتا جاتا

کالے کی سگریٹ بھی کالی

کالے کا گردہ بھی کالا

کالے کی کپی بھی کالی

کالے کی چسکی بھی کالی

کالے کا ہر کش بھی کالا

ہر ہر کش سے لال بھبھوکا

کالے کی آنکھیں بھی کالی

آنکھوں سے گرنے والے سب آنسو کالے

اور کالی آنکھوں میں دکھنے والی

مشکل کی دیوار بھی کالی

کالے کی تو جیت بھی کالی ہار بھی کالی

کالے کے سب بلب بھی کالے

کالے کی سب وائرنگ کالی

وائرنگ وہ جو اندر اندر

سلگ سلگ کر

کالے کی ساری سوچوں کو

اور خوابوں کو

گلا چکی تھی

جلا چکی تھی

جب وہ چلتا تو لگتا وہ لہراتا ہے

چلتے چلتے بل کھاتا ہے

گر جاتا ہے

کالا کیا تھا

کلنگ کا ٹیکہ

زمیں کا دھبہ

کالا جس کی آگ میں جل کر راکھ ہوا تھا

کالے کے اندر کی آگ تھی

یا تھی وہ باہر کی آگ

آگ بھی کالی

دھواں بھی کالا راکھ بھی کالی

آگ سے اٹھنے والا اک اک شعلہ کالا

کالے کی بے بسی بھی کالی

کالے کی کھجلی بھی کالی

کالے کے سب پھوڑے پھنسی چھالے کالے

کالے کو سب کالا کہنے والے کالے

اک دن کالی سڑک کنارے

بنگالی کے پان کے کیبن کی جالی کو تھامے کالا

گھور رہا تھا آتے جاتے

رنگ برنگے کرداروں کو

رکشا موٹر سائیکل اور کاروں کو

اک لمبی سی کالی گاڑی

دھواں اڑاتی

چیختی اور چلاتی گزری

گہرے کالے بالوں والی گوری بچی

ایک گلی سے بھاگتی نکلی

کالا بھاگا

اور گوری بچی کو پورے زور سے دھکا دے کر

کالی گاڑی کے دھکے کو خود پر جھیلا

کالا جاتے جاتے سب سے کیسا کھیلا

گوری بچی بچ گئی لیکن

کالا اپنی جاں دے بیٹھا

پیلے لال گلابی چہرے

کالے کی جانب جب لپکے

سب نے دیکھا

کالے کی آنکھوں میں چیخ رہا تھا ایک سوال

کالے کے زخموں سے بہنے والا خون تھا لال

(947) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Kala In Urdu By Famous Poet Imran Shamshad. Kala is written by Imran Shamshad. Enjoy reading Kala Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Imran Shamshad. Free Dowlonad Kala by Imran Shamshad in PDF.