دنیا میں کوئی رنج سے بڑھ کر خوشی نہیں

دنیا میں کوئی رنج سے بڑھ کر خوشی نہیں

وہ بھی ہمیں نصیب کبھی ہے کبھی نہیں

درد جگر کی تم پہ مصیبت پڑی نہیں

تم تو کہو گے عشق کی منزل کڑی نہیں

دشمن کی راہ روک کے بیٹھا ہوں آج میں

دنیا کا راستہ ہے تمہاری گلی نہیں

دشمن کی موت کا تمہیں کیوں کر نہ ہو ملال

اک باوفا جہاں میں وہی تھا وہی نہیں

شوخی کسی کی کھل گئی آخر کلیم پر

کرنے کی تھی جو بات وہی ان سے کی نہیں

قطروں کے لب پہ شور انالبحر ہے رواں

تقلید کیا یہ حضرت منصور کی نہیں

ایفائے عہد ہے کہ قیامت کا شور ہے

تم کھل کے کہہ نہ دو کہ زباں ہم نے دی نہیں

لیلیٰ نے خود قرار دیا ہے وفا کو جرم

مجنوں نے وہ کتاب محبت پڑھی نہیں

کٹنے کو کٹ رہی ہے برابر شب فراق

جینے کو جی رہا ہوں مگر زندگی نہیں

تم کو فریب غیر سے آگاہ کر دیا

ورنہ مجھے کسی سے کوئی دشمنی نہیں

روتا ہے بے ثباتیٔ گلزار دہر پر

غنچہ کے لب پہ غور سے دیکھو ہنسی نہیں

آنکھوں نے پھوٹ پھوٹ کے سب حال کہہ دیا

عین وصال میں بھی یہاں خامشی نہیں

پیر مغاں کے فیض سے روشن ہے مے کدہ

ساغر کا جو مرید نہیں متقی نہیں

آرام سے قفس میں گزاروں گا زندگی

اچھا ہوا کہ طاقت پرواز ہی نہیں

آتی ہے خاک طور سے اب تک یہی خدا

دل کی لگی کا ذکر کوئی دل لگی نہیں

عاشق کے دم سے حسن کی دنیا کو ہے فروغ

بلبل نہیں تو رونق گلزار ہی نہیں

دلبر کے انتخاب میں مجھ سے خطا ہوئی

میرا قصور ہے یہ خطا آپ کی نہیں

وحدت کا وہ سرور تھا ساقی کے جام میں

پینے کو ہم نے پی ہے مگر بے خودی نہیں

پوچھا تھا بے وفا تو نہ پایا رقیب کو

میں نے بھی کس مزے سے کہا ہے کہ جی نہیں

کھانے کو زخم ملتے ہیں پینے کو اشک ہیں

روزی جہاں ہیں کیا مری تقدیر کی نہیں

عاشق کے زخم دیکھ کے عیسیٰ نے کہہ دیا

یہ تو نظر کی چوٹ ہے تلوار کی نہیں

تشنہ لبوں کی جان ہے شمشیر آبدار

خواہش انہیں تو کوثر و تسنیم کی نہیں

جنبش ہوئی ہے دشنۂ غمزہ کو بے سبب

اللہ خیر عالم اسباب کی نہیں

جس سمت آنکھ اٹھتی ہے کشتوں کا ڈھیر ہے

مقتل ہے عاشقوں کا تمہاری گلی نہیں

جنت سے کچھ غرض ہے نہ دنیا سے واسطہ

معشوق اپنا حور نہیں ہے پری نہیں

خانہ خراب عشق کی حالت نہ پوچھئے

کوئی بھی غم گسار بجز بیکسی نہیں

انکار اب تو اس لب نازک سے ہو چکا

پہلی سی شکل غنچۂ امید کی نہیں

تو خانہ زاد زلف کو آزاد کیوں کرے

میں تو ترا غلام ہوں میں آدمی نہیں

حوروں کو بھیج کر مری حالت تو پوچھئے

کنج مزار باعث دل بستگی نہیں

اک ماہرو کی یاد نے چمکا دیا ہے دل

سینہ ہے داغ داغ مگر تیرگی نہیں

تاثیر آہ کی کبھی تم کو دکھائیں گے

ہم ہیں تو گنبد فلک چنبری نہیں

بارش ہی کو الٹ کے بنا دو نہ تم شراب

تم کو ذرا مذاق ادب پروری نہیں

روتا ہے کوئی دل کو کوئی اپنا جان کر

ڈاکہ ہے لوٹ مار ہے یہ دلبری نہیں

آنکھوں سے قتل کرتے ہو لب سے جلاتے ہو

پھر یہ کمال کیا ہے جو افسوں گری نہیں

طالب کی آنکھ کرتی ہے خیرہ شعاع حسن

پردہ ہے اس کا نام یہ بے پردگی نہیں

زمزم حرم سے آتا ہے راسخؔ کے واسطے

وہ خانۂ خدا ہے وہاں کچھ کمی نہیں

راسخؔ کسے سنائیں ہم اپنا بیان غم

غالبؔ نہیں انیسؔ نہیں انوریؔ نہیں

(681) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Duniya Mein Koi Ranj Se BaDh Kar KHushi Nahin In Urdu By Famous Poet Mohammad Yusuf Rasikh. Duniya Mein Koi Ranj Se BaDh Kar KHushi Nahin is written by Mohammad Yusuf Rasikh. Enjoy reading Duniya Mein Koi Ranj Se BaDh Kar KHushi Nahin Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohammad Yusuf Rasikh. Free Dowlonad Duniya Mein Koi Ranj Se BaDh Kar KHushi Nahin by Mohammad Yusuf Rasikh in PDF.