بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں

بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں

جو ہے کام آج کا کل تک اسے لٹکائے رکھتے ہیں

تغافل سا روا رکھتے ہیں اس کے سامنے کیا کیا

مگر اندر ہی اندر طبع کو للچائے رکھتے ہیں

ہماری جستجو سے دور تر ہے منزل معنی

اسی کو کھوئے رکھنا ہے جسے ہم پائے رکھتے ہیں

ہماری آرزو اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی

پجامہ اس طرح کا ہے جسے الٹائے رکھتے ہیں

ہوائیں بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہیں کرتیں

سو یہ شاخ تماشا آپ ہی تھرائے رکھتے ہیں

اسی کی روشنی ہے اور اسی میں بھسم ہونا ہے

یہ شعلہ شام کا جو رات بھر بھڑکائے رکھتے ہیں

ہم اتنی روشنی میں دیکھ بھی سکتے نہیں اس کو

سو اپنے آپ ہی اس چاند کو گہنائے رکھتے ہیں

نشیب شاعری میں ہے ہماری ذات سے رونق

یہی پتھر ہے جس کو رات دن لڑھکائے رکھتے ہیں

یہ گھر جس کا ہے اس نے واپس آنا ہے ظفرؔ اس میں

اسی خاطر در و دیوار کو مہکائے رکھتے ہیں

(1200) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Bahut Suljhi Hui Baaton Ko Bhi Uljhae Rakhte Hain In Urdu By Famous Poet Zafar Iqbal. Bahut Suljhi Hui Baaton Ko Bhi Uljhae Rakhte Hain is written by Zafar Iqbal. Enjoy reading Bahut Suljhi Hui Baaton Ko Bhi Uljhae Rakhte Hain Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zafar Iqbal. Free Dowlonad Bahut Suljhi Hui Baaton Ko Bhi Uljhae Rakhte Hain by Zafar Iqbal in PDF.