دوست

میں بہت اکیلا ہوں

تم مجھ سے دوستی کر لو

شہر کہتا ہے

اور اپنے ہاتھ

ہماری طرف پھیلا دیتا ہے

ہم اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں

اور ڈر جاتے ہیں

شہر کے ہاتھ کہنیوں تک

جلے ہوئے ہیں

ایسی حالت میں

کوئی کسی کے ہاتھ

بھلا کیسے تھام سکتا ہے

کوئی کسی کے ساتھ

کیسے دوستی کر سکتا ہے

ہم اپنا منہ پھیر لیتے ہیں

اور شہر سے دور

جانے لگتے ہیں

ہمیں اپنے پاس سے جاتا دیکھ کر

شہر کو شاید بہت ڈر لگتا ہے

وہ جلدی جلدی ہمارے پیچھے آنے لگتا ہے

اور کہتا ہے مجھے بھی

اپنے ساتھ لے چلو

اپنے ہاتھوں کو ایک سفید کپڑے سے چھپاتے ہوئے

وہ اپنی بات دہراتا ہے

اسے اپنے ساتھ آتا دیکھ کر

ہم رک جاتے ہیں

شہر بھی رک جاتا ہے

ہم اس کے پیروں کو دیکھتے ہیں

اور اپنی آنکھیں

بند کر لیتے ہیں

اس کے پیروں کی انگلیوں میں

بہت سے چھاپے پڑے ہوئے ہیں

اس کی ایڑی اور تلووں سے

خون بہہ رہا ہے

ہم شہر سے کہتے ہیں

کینوس کے جوتے

اور اونی موزے پہنے بغیر

تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے

اپنے راستے پر

چلنے لگتے ہیں

ہماری باتوں سے شہر کی آنکھوں میں

کتنے آنسو جمع ہو جاتے ہیں

ہم انہیں نہیں دیکھتے

ہمارے جانے سے شہر کے دل پر

کیا اثر ہوگا

ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں

ہمارے بغیر شہر

کس قدر اداس کتنا اکیلا ہو جاتا ہے

اس کے بغیر اپنے راستے پر چلتے ہوئے

ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا

ہم نہیں جانتے

جب بھی ہمیں کچھ ہوتا ہے

ہمارے دوستوں کی طرح شہر

ہمارے لیے پریشان ہو جاتا ہے

ہمیں بچانے کے لیے

ہم جہاں بھی کہیں ہوں

وہ اپنے زخمی پیروں کے ساتھ

ہماری سمت میں

دوڑنے لگتا ہے

ہمیں نہ پا کر

اپنے

کہنیوں تک جلے

ہاتھ اٹھا کر

شہر ہماری خیریت کی

دعائیں مانگنے لگتا ہے

(1115) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Dost In Urdu By Famous Poet Zeeshan Sahil. Dost is written by Zeeshan Sahil. Enjoy reading Dost Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zeeshan Sahil. Free Dowlonad Dost by Zeeshan Sahil in PDF.