سبزۂ بیگانہ

حسب نسب ہے نہ تاریخ و جائے پیدائش

کہاں سے آیا تھا مذہب نہ ولدیت معلوم

مقامی چھوٹے سے خیراتی اسپتال میں وہ

کہیں سے لایا گیا تھا وہاں یہ ہے مرقوم

مریض راتوں کو چلاتا ہے ''مرے اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے اک، نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے یہ حبس دم ہے خائف ہے

ستم رسیدہ ہے مظلوم ہے بچا لو اسے''

مریض چیختا ہے درد سے کراہتا ہے

یہ وتنام، کبھی ڈومنیکن، کبھی کشمیر

زر کثیر، سیہ قومیں، خام معدنیات

کثیف تیل کے چشمے، عوام، استحصال

زمیں کی موت بہائم، فضائی جنگ، ستم

اجارہ داری، سبک گام، دل ربا، اطفال

سرود و نغمہ، ادب، شعر، امن، بربادی

جنازہ عشق کا، دف کی صدائیں، مردہ خیال

ترقی، علم کے گہوارے، روح کا مدفن

خدا کا قتل، عیاں زیر ناف زہرہ جمال

تمام رات یہ بے ربط باتیں کرتا ہے

مریض سخت پریشانی کا سبب ہے یہاں

غرض کہ جو تھا شکایت کا ایک دفتر تھا

نتیجہ یہ ہے اسی روز منتقل کرکے

اسے اک اور شفا خانے کو روانہ کیا

سنا گیا ہے وہاں نفسیات کے ماہر

طبیب حاذق و نباض ڈاکٹر کتنے

طلب کیے گئے اور سب نے اتفاق کیا

یہ کوئی ذہنی مرض ہے، مریض نے شاید

کبھی پرندہ کوئی پالا ہوگا لیکن وہ

عدم توجہی یا اتفاق سے یونہی

بچارہ مر گیا اس موت کا اثر ہے یہ

عجیب چیز ہے تحت شعور انساں کا

یہ اور کچھ نہیں احساس جرم ہے جس نے

دل و دماغ پہ قبضہ کیا ہے اس درجہ

مریض قاتل و مجرم سمجھتا ہے خود کو!

کسی کی رائے تھی پسماندہ قوم کا اک فرد

مریض ہوگا اسی واسطے سیہ قومیں

غریب کے لیے اک ٹیبو بن گئیں افسوس

کوئی یہ کہتا تھا یہ اصل میں ہے حب وطن

مریض چاہتا تھا ہم کفیل ہوں اپنے

کسی بھی قوم کے آگے نہ ہاتھ پھیلائیں

یہیں پہ تیل کے چشمے ہیں، وہ کریں دریافت!

گمان کچھ کو تھا یہ شخص کوئی شاعر ہے

جو چاہتا تھا جہاں گردی میں گزارے وقت

حسین عورتیں مائل ہوں لطف و عیش رہے

قلم کے زور سے شہرت ملے زمانے میں

زر کثیر بھی ہاتھ آئے اس بہانے سے

مگر غریب کی سب کوششیں گئیں ناکام

شکست پیہم و احساس نارسائی نے

یہ حال کر دیا مجروح ہوگئے اعصاب

غرض کہ نکتہ رسی میں گزر گیا سب وقت

وہ چیختا ہی رہا درد کی دوا نہ ملی

نشست بعد نشست اور معائنے شب و روز

انہیں میں وقت گزرتا گیا شفا نہ ملی

پھر ایک شام وہاں سرمہ در گلو آئی

جو اس کے واسطے گویا طبیب حاذق تھی

کسی نے پھر نہ سنی درد سے بھری آواز

کراہتا تھا جو خاموش ہو گیا وہ ساز

برس گزر گئے اس واقعہ کو، ماضی کی

اندھیری گود نے کب کا چھپا لیا اس کو

مگر سنا ہے شفا خانے کے در و دیوار

وہ گرد و پیش جہاں سے کبھی وہ گزرا تھا

خرابے بستیاں جنگل، اجاڑ راہ گزار

اسی کی چیخ کو دہرائے جا رہے ہیں ابھی

''کوئی مداوا کرو ظالمو مرے اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے اک نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے یہ حبس دم ہے خائف ہے

ستم رسیدہ ہے مظلوم ہے بچا لو اسے''

(1063) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Sabza-e-begana In Urdu By Famous Poet Akhtar-ul-Iman. Sabza-e-begana is written by Akhtar-ul-Iman. Enjoy reading Sabza-e-begana Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Akhtar-ul-Iman. Free Dowlonad Sabza-e-begana by Akhtar-ul-Iman in PDF.