پنہاں تھا خوش نگاہوں کی دیدار کا مرض

پنہاں تھا خوش نگاہوں کی دیدار کا مرض

بند آنکھ جب ہوئی تو ہمارا کھلا مرض

بے دار و وصال نہ یہ جائے گا مرض

سچ ہے فراق یار کا ہے جاں گزا مرض

کیا بد بلا ہے عشق کہن سال کا مرض

ہوتا ہے نوجوان کو یہ بارہا مرض

مہلک تھا کیسا ان کی ملاقات کا مرض

بڑھتے ہی ان سے ربط مرا گھٹ گیا مرض

کیا جانیں کون روگ ہے عشق بلاے جاں

سایہ ہے کوئی یا کہ جھپٹا ہے یا مرض

عیسیٰ کے پاس بھی کوئی اس کی دوا نہیں

کہتے ہیں جس کو عشق وہ ہے موت کا مرض

وعدہ وصال کا نہ کوئی سچ کیا کبھی

تم کو بھی جھوٹ بولنے کا ہو گیا مرض

آئینہ رو جہاں کوئی دیکھا پھسل گیا

آگے ہمارے دل کو تو ایسا نہ تھا مرض

بقراط کیا مسیح بھی دیکھیں تو دیں جواب

تیرے مریض عشق کا ہے لا دوا مرض

دانتوں پہ شیفتہ تھے ہوئے اب فداے لب

تھا روگ ایک تو یہ ہوا دوسرا مرض

آرام درد عشق سے دل کو کمال ہے

صحت سے بھی عزیز مجھے ہے سوا مرض

واقف ہیں ہم نتیجۂ آزار عشق سے

بے گور کے جھنکائے تو یہ جا چکا مرض

الفت کے عارضی کی دوا ہے اجل کے پاس

جاتے ہوئے کبھی نہیں ایسا سنا مرض

کیا کیا ترس ترس کے نکلتی ہے جان زار

اس عشق کا ہے سب مرضوں سے سوا مرض

دل کو ہمارے الفت عارض ہے عارضی

کیا اے قلقؔ رہا ہے کسی کا سدا مرض

(1782) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Pinhan Tha KHush-nigahon Ki Didar Ka Maraz In Urdu By Famous Poet Arshad Ali Khan Qalaq. Pinhan Tha KHush-nigahon Ki Didar Ka Maraz is written by Arshad Ali Khan Qalaq. Enjoy reading Pinhan Tha KHush-nigahon Ki Didar Ka Maraz Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Arshad Ali Khan Qalaq. Free Dowlonad Pinhan Tha KHush-nigahon Ki Didar Ka Maraz by Arshad Ali Khan Qalaq in PDF.