ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارا کافی ہے

ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارا کافی ہے

اس منظر میں اس کے علاوہ کوئی اکیلا کافی ہے

دینے والا جھولیاں بھر بھر دیتا ہے تو اس کا کرم

لینے والے کب کہتے ہیں داتا اتنا کافی ہے

ایک غلط انداز نظر سے گلشن گلشن داغ جلیں

شبنم شبنم رلوانے کو ایک ہی جملہ کافی ہے

خشک لبوں پر پیاس سجائے بحر آشام نہیں ہیں ہم

ہم جیسوں کو تشنہ لبی میں ایک ہی دریا کافی ہے

اب تو اور بھی دنیائیں ہیں منتظر ارباب ہوس

ان لوگوں کا قول نہیں ہے ہم کو یہ دنیا کافی ہے

شہر وفا سے دشت جنوں تک چاہے جتنے مراحل ہوں

وحشت کے تو دوسرے رخ پر ایک دریچہ کافی ہے

حسن سخن باقی رکھنے کو کچھ ابہام ضروری ہے

کہتے کہتے رک جانے میں ہے جو اشارہ کافی ہے

اس کے افسوں اس کے فسانے دونوں کو مسحور رکھیں

عقل و جنوں کی دہلیزوں پر خواب کا پہرہ کافی ہے

ایک سبھا دل والوں کی اک تان رسیلے لوگوں کی

شہر کے روشن رکھنے کو اتنا سا اجالا کافی ہے

(850) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Samundar Ek Kinara Ek Sitara Kafi Hai In Urdu By Famous Poet Aslam Ansari. Ek Samundar Ek Kinara Ek Sitara Kafi Hai is written by Aslam Ansari. Enjoy reading Ek Samundar Ek Kinara Ek Sitara Kafi Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Aslam Ansari. Free Dowlonad Ek Samundar Ek Kinara Ek Sitara Kafi Hai by Aslam Ansari in PDF.