بچھڑے گھر کا سایہ

صبح سویرے

وہ بستر سے سائے جیسی اٹھتی ہے

پھر چولھے میں رات کی ٹھنڈی آگ کو

روشن کرتی ہے

اتنے میں دن چڑھ جاتا ہے

جلدی جلدی چائے بنا کر شوہر کو رخصت کرتی ہے

سیارے گردش کرتے ہیں

شہر میں صحرا صحراؤں میں چٹیل میداں

کہساروں کے نشیب و فراز بنا کرتے ہیں

سارے گھر کو دھوتی ہے

کپڑے تولیے ٹوتھ برش بستر کی چادر

کوئی کتاب اٹھاتی ہے رکھ دیتی ہے

ریڈیو آن کیا پھر روکا آن کیا

پھر کوئی پرانا خط پڑھتی ہے

(گھنٹی بجی)

''مریم! آ جاؤ''

''تم کیسی؟ ہو وہ کیسے ہیں''

''کیا اس کا کوئی خط آیا؟''

(تھوڑی خاموشی کا وقفہ)

''تم کیسی ہو''

''تم سے مطلب؟ سچ کہہ دوں تو کیا کر لو گی''

دیکھو سب کی سب بیٹھی ہوں

''اچھا''

''اچھا''

(دروازہ پھر بند ہو گیا)

''اب کیا کرنا!

گھر تو بالکل صاف پڑا ہے

کوئی شکن بستر پہ نہیں ہے

دیوار و در دھلے دھلائے

کوئی دھبہ یا مکڑی کا جالا تنکا

کہیں کچھ نہیں

کیا کرنا ہے!

اف! وہ کلنڈر

کتنے برس ہو گئے پھر بھی

آئیں تو ان سے کہتی ہوں

بالکل نیا کلنڈر لائیں

کچھ بھوک نہیں

اب کیا کرنا ہے

لیٹ رہوں؟ لیکن کیا لیٹوں

جانے کتنا لیٹ چکی ہوں

کھڑی رہوں

ہاں کھڑی رہوں

پر میں تو کب سے کھڑی ہوئی ہوں

کھڑکی کا پردہ ہی کھولوں

دھوپ کہاں تک آ پہنچی ہے

لاؤ اپنا البم دیکھوں

نیر شبنم شفق صبوحی اختر جوہی

کیسے ہوں گے

آں! یہ میں ہوں

اتی پیاری پیاری تھی میں

میں بالکل ہی بھول گئی تھی

سب کتنا اچھا لگتا تھا

ابا، اماں، بھیا، اپی

سب زندہ تھے

سایہ نانی گلشن آپا

ہاں اور وہ گوریا بابا

آنسو نغمے شور ٹھہاکے سارے اک سر میں ہوتے تھے

ساری دنیا گھر لگتی تھی

اماں ادھر بلایا کرتیں

ابا ادھر پکارا کرتے

بھیا ڈانٹتے

اپی ڈھیروں پیار جتاتیں

کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، روٹھنا، مننا

ڈور بندھی تھی

ایک میں ایک پرویا ہوا تھا

کل نمو کے گھر شادی ہے

پاس ہی کوئی موت ہوئی ہے

کالج کی چھٹی کب ہوگی

عید پھر اب کی تیس کی ہوگی

ہم بھی لیل قدر جاگیں گے

شہلا کی منگنی کیوں ٹوٹی؟

کیا اقبال کوئی شاعر تھا؟

چپ بڑکے ابا سن لیں گے

سائے دوڑ رہے ہیں گھر میں

ہر گوشے میں اوپر نیچے اندر باہر دوڑ رہے ہیں

لمبے چھوٹے سبز و زرد ہزاروں سائے

باہر شہر میں کوئی نہیں ہے

دھوپ سیہ پڑتی جاتی ہے

قد آدم آئینے میں

اس کا ننگا جسم کھڑا ہے

جسم کے اندر سورج کا غنچہ مہکا ہے

سیارے گردش کرتے ہیں

سب انجانے سیاروں میں بھولے بسرے گھر روشن ہیں

کس لمحے کا ہے یہ تماشہ

ہست و بود کے سناٹے میں

لا موجود کی تاریکی میں

صرف یہی آئینہ روشن

صرف اک عکس گزشتہ روشن

بچھڑے گھر کا سایہ روشن

(1121) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

BichhDe Ghar Ka Saya In Urdu By Famous Poet Farhat Ehsas. BichhDe Ghar Ka Saya is written by Farhat Ehsas. Enjoy reading BichhDe Ghar Ka Saya Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Farhat Ehsas. Free Dowlonad BichhDe Ghar Ka Saya by Farhat Ehsas in PDF.