داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے

وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے

خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا

کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے

ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصۂ غم

ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے

(2109) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Dagh Duniya Ne Diye ZaKHm Zamane Se Mile In Urdu By Famous Poet Kaif Bhopali. Dagh Duniya Ne Diye ZaKHm Zamane Se Mile is written by Kaif Bhopali. Enjoy reading Dagh Duniya Ne Diye ZaKHm Zamane Se Mile Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Kaif Bhopali. Free Dowlonad Dagh Duniya Ne Diye ZaKHm Zamane Se Mile by Kaif Bhopali in PDF.