الجھنیں

زباں کو ترجمان غم بناؤں کس طرح کیفیؔ

میں برگ گل سے انگارے اٹھاؤں کس طرح کیفیؔ

سمجھ میں کس کی آئے راز میرے ہچکچانے کا

اندھیرے میں چلا کرتا ہے ہر ناوک زمانے کا

نگاہ مست کی اللہ رے معصوم تاکیدیں

مجھے ہے حکم ساز مفلسی پر گنگنانے کا

میں ساز مفلسی پر گنگناؤں کس طرح کیفیؔ

ہنسی بھی میری نوحہ ہے مرا نغمہ بھی ماتم ہے

جنوں بھی مجھ سے برہم ہے خرد بھی مجھ سے برہم ہے

سلگتا شوق پگھلتے ولولے جلتی تمنائیں

زمیں میری جہنم ہے فلک میرا جہنم ہے

خیالی جنتوں میں بیٹھ جاؤں کس طرح کیفیؔ

یہ طوق بندگی وہ پھول سی گردن معاذ اللہ

وہ شہد آلود لب اور تلخئ شیون معاذ اللہ

کمال حسن اور یہ انکسار عشق ارے توبہ

وہ نازک ہاتھ میرا گوشۂ دامن معاذ اللہ

جھٹک کر گوشۂ دامن چھڑاؤں کس طرح کیفیؔ

نوید صبح سنتا ہی نہیں رنگین خواب اس کا

گھرا جاتا ہے ظلمت ریز کرنوں میں شباب اس کا

مجھے فرصت نہیں رنگینیوں میں ڈوب جانے کی

اسے دیتا یہ دھوکا اعتبار انتخاب اس کا

حقیقت مست آنکھوں کو دکھاؤں کس طرح کیفیؔ

فنا میں حزن دیدہ زندگی ضم ہوتی جاتی ہے

تھکی نبضوں کی خستہ ضرب مدھم ہوتی جاتی ہے

یہ ارمانوں کا موسم یہ مری گرتی ہوئی صحت

اندھیری رات اور لو شمع کی کم ہوتی جاتی ہے

شبستان وفا کو جگمگاؤں کس طرح کیفیؔ

نرالی جست کرنا ہے نئے رستے پہ چلنا ہے

نئے شعلوں میں تپنا ہے نئے سانچے میں ڈھلنا ہے

یہی دو چار سانسیں جو ابھی مجھ کو سنبھالے ہیں

انہیں دو چار سانسوں میں زمانے کو بدلنا ہے

انہیں بھی سرد گیتوں میں گنواؤں کس طرح کیفیؔ

پریشاں قافلے نے اب نشاں منزل کا پایا ہے

دھندلکوں کے ادھر اک سرخ تارا جھلملایا ہے

چلے ہیں ہانپتے انساں نئی دنیا بسانے کو

بہت ایسے ہیں ان میں جن کو خود میں نے بڑھایا ہے

میں خود ہی راستے سے لوٹ آؤں کس طرح کیفیؔ

(967) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Uljhanen In Urdu By Famous Poet Kaifi Azmi. Uljhanen is written by Kaifi Azmi. Enjoy reading Uljhanen Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Kaifi Azmi. Free Dowlonad Uljhanen by Kaifi Azmi in PDF.