وہ آنکھیں کنول بنیں

وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں

اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں

کوئی دیکھنے آیا

آنکھیں آن کی آن میں کنول بنیں اور خشک ہوئیں

اور دلدل پھیلا سمٹ گیا

اور رات کی چادر پھیل گئی

کوئی دیکھنے آیا

آن کی آن میں دلدل پھیلا سمٹ گیا

اب ہاتھی دانت کے رسیا آئیں تو آئیں

تم گھر کی میلی چادر لے کر آئے تھے

اور جھاڑی میں چڑیوں کے انڈے ڈھونڈتے تھے

اور خوش تھے

اور انڈے ہاتھ ہی ہاتھ میں ٹوٹ گئے

تم روئے تھے

اور رونے والے گھر جا کر بھی روتے ہیں

وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں

اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں

کل بارش کیسی تیز ہوئی

نت بادل پھیلے دیے جلے

میں چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا

جو چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا سو چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا

پھر پتھر جیسا دن نکلا

وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں

تم جنگل جا کر دیکھو گے

جب پتے مٹی میں دب جاتے ہیں

مٹی کے ہو جاتے ہیں

اب پتوں کا کیا رونا

اور آنکھوں کا کیا رونا

اور دلدل کا کیا رونا

وہ ہاتھی دانت کے رسیا تو آئیں گے

میں کندھا دینے چلا کسی کو

اور کہیں کو چل نکلا

اب جوگی بنوں یا شعر کہوں

اب آنکھیں کنول بنیں یا بجھ جائیں

اب دلدل پھیلے یا سمٹے

اب دلدل کا کیا رونا

اب آنکھوں کا کیا رونا

اب رونے والوں پر رونے والوں کا کیا رونا

(601) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Wo Aankhen Kanwal Banin In Urdu By Famous Poet Mohammad Anvar Khalid. Wo Aankhen Kanwal Banin is written by Mohammad Anvar Khalid. Enjoy reading Wo Aankhen Kanwal Banin Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohammad Anvar Khalid. Free Dowlonad Wo Aankhen Kanwal Banin by Mohammad Anvar Khalid in PDF.