یہ کیسے لوگ ہیں

یہ کیسے لوگ ہیں جو سنگ بستہ جالیوں کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں

سرہانے لڑکیوں کے رات کی بکھری کتابیں ہیں

اور ان کے خواب اندھیروں کے درکتے روزنوں سے

دھڑدھڑاتی بلیوں کی طرح گھر گھر پھیل جاتے ہیں

میں ساری رات آوازوں کا مبہم شور سنتا ہوں

اور آنکھیں بند رکھتا ہوں

اور ان کے ساتھ ہو لیتا ہوں جن کا راستہ میرا مقدر ہے

سو اب میری گواہی کون دے گا

کہ میں اپنی گواہی کے لیے زندہ نہیں ہوں

وہ ایسے لوگ تھے جو

دشت بے دیوار میں اپنے سفر کا نیند سے آغاز کرتے تھے

اور ان کی انگلیاں صحرائی سانپوں کی طرح ان کے بدن پر رینگتی تھیں

اور ان کی گردنیں ٹوٹی کمانوں کی طرح ان کے بدن پر جھولتی تھیں

وہ اپنی پٹ کھلی آنکھوں سے سوتے تھے

وہ چلتے تھے تو ان کی آستینیں پاؤں میں آتی تھیں

اور وہ رک کے چلتے تھے

درختوں میں کہیں بیٹھا روپہلی رت کا کارندہ

سمندر سمت کا قطبی ستارہ ہے

سمندر میری آنکھوں کا اشارہ ہے

اسے کہنا وہ میری میز پر اپنی ہتھیلی یوں جمائے مجھ کو مت دیکھے

اسے کہنا ستاروں اور ان کی چال میں کچھ فرق ہوتا ہے

اسے کہنا وہ اپنی گردن بے ساختہ کے آئنے میں مجھ کو مت دیکھے

اسے کہنا وہ اپنی بلیوں کی گردنوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ کو مت دیکھے

اسے کہنا محبت اک اکیلی ناؤ ہے

اور آسماں آئینہ برداری کا مجرم ہے

(526) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ye Kaise Log Hain In Urdu By Famous Poet Mohammad Anvar Khalid. Ye Kaise Log Hain is written by Mohammad Anvar Khalid. Enjoy reading Ye Kaise Log Hain Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohammad Anvar Khalid. Free Dowlonad Ye Kaise Log Hain by Mohammad Anvar Khalid in PDF.