مکاشفہ

سنو اگر تم ختم کرنا ہی چاہتے ہو

تو آدمی کو آدمی سے کرنے والے آدمی کو ختم کر دو

اس سے وہ سب کچھ چھین لو

جو تمہارے پاس بہت پہلے بھی نہیں تھا

اور بعد میں بھی نہیں ہے

جب آگ اور برف کی تاثیر ایک ہی ہے

تو دونوں کی الگ الگ شکل

تمہیں کیا دے سکتی ہے

یا تم اس سے کیا لے سکتے ہو

سوائے اس کے کہ تم آگ کو ختم کر دو

اور برف کو بھی ختم کر دو

مگر جو آگ اور برف تمہاری روح میں کہیں رکھی ہوئی تھی

یا تو تم نے کبھی لمس نہیں کیا

یا جو آدمی روح میں رکھا ہوا تھا

اسے تو تم نے کبھی نہیں چھوا

پھر معلوم نہیں اس کا کون سا جسم

تمہارے ہاتھ لگا

کہ تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے

اسے رشتوں میں تقسیم کر دیا

ماں باپ بیٹا بیٹی بھائی بہن

اور ان پر حکومت کرنے والے

بدترین محکوم بھی تم ہی نکلے

یعنی کسی ماں باپ نے

اپنے بیٹے اور بیٹی کی آگ کو جنم دے کے

کبھی اس پر گھڑی بھر سر رکھ کے سونا چاہا

تو اسے سونے نہیں دیا گیا

پھر جب بھائی بہن الگ الگ

اپنی آگ اور برف کی تجارت کو نکلے

تو اس میں آدمی ہی شامل نہیں تھا

یا شاید آدمی کا ہی نام خسارہ رکھا گیا

پھر بھی جب تمہارا بساط بھر ہونا ہی

تمہارا مقدر ٹھہرا

تو یاد کرو کہ وہ تم ہی تھے یا تم نہیں تھے

یا جسے خدا کے آخری جواب میں

آواز دی گئی پکارا گیا

اس سے بڑھ کے بھی کوئی دکھ کیا ہو سکتا ہے کہ

بچھڑی ہوئی زندگی کے بچھڑے ہوئے پیڑ یاد نہ رہیں

پھر بھی ذرا مڑ کے دیکھو تو سہی

کہ کہیں سورج سوا نیزے پہ تو نہیں آ چکا

کائنات کہاں ہے

زمین تو کائنات سے خالی ہے

بنا کائنات کے بھی کوئی زمین زمین ہو سکتی ہے

بنا سورج کے بھی کوئی دھوپ دھوپ ہو سکتی ہے

بنا چاند کے بھی کوئی چاندنی چاندنی ہو سکتی ہے

یعنی کوئی دن دن نہیں

یعنی کوئی رات رات نہیں

یعنی کوئی آب و ہوا آب و ہوا نہیں

یعنی کوئی موسم موسم نہیں

یعنی زمین پر زمین ہی نہیں اور بہت کچھ ہے

اگر دروازہ کو کھولنے اور بند کرنے والا ہی نہ ہو تو

کوئی کھلا دروازہ بند دروازہ سے بھی زیادہ بند ہوتا ہے

کوئی شہر چاروں طرف سے کھلا ہو اور بند بھی ہو

تو سمجھ لو کہ اس میں رہنے والے رہتے ہوئے بھی نہیں رہتے

اس میں کوئی مخلوق رہتی ہے

زمین کے کسی ملک میں بھی تاریخ کی ویرانی کے سوا

کوئی آباد نہیں

جب آدمی کے منہ آنکھ ناک اور کان کے ہوتے ہوئے بھی

آدمی کی شکل نہیں بنتی

تو کوئی آواز آواز ہوتے ہوئے بھی آواز کیسے ہو سکتی ہے

تو بولتے ہوئے بھی کیسے بول سکتا ہے

تو کوئی دیکھتے ہوئے بھی کیسے دیکھ سکتا ہے

تو کوئی سونگھتے ہوئے بھی کیسے سونگھ سکتا ہے

تو کوئی سنتے ہوئے بھی کیسے سن سکتا ہے

سنو امید تو موت کے ہاتھ میں ایک کام ہے

جسے وہ تمہاری گردن میں شکنجہ کر کے آگے ہی آگے چلتی چلی جاتی ہے

اور تم کے اس پیچھے کشاں کشاں کھنچے چلے جاتے ہو

مگر وہ دنیا تو اب کہیں نہیں رہی

وہ تو تمہاری زمین میں یا تم میں کہیں گم ہو گئی

(1009) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Makashafa In Urdu By Famous Poet Ahmad Hamesh. Makashafa is written by Ahmad Hamesh. Enjoy reading Makashafa Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ahmad Hamesh. Free Dowlonad Makashafa by Ahmad Hamesh in PDF.