پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا

باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے

لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا

دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی

سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا

اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی

پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا

ہاتھوں پہ بہہ رہی ہے لکیروں کی آب جو

قسمت کا کھیت پھر بھی ہے بنجر پڑا ہوا

یہ خود بھی آسمان کی وسعت میں قید ہے

کیا دیکھتا ہے چاند کو چھت پر پڑا ہوا

جلتا ہے روز شام کو گھاٹی کے اس طرف

دن کا چراغ جھیل کے اندر پڑا ہوا

مارا کسی نے سنگ تو ٹھوکر لگی مجھے

دیکھا تو آسماں تھا زمیں پر پڑا ہوا

(1444) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Pyase Ke Pas Raat Samundar PaDa Hua In Urdu By Famous Poet Iqbal Sajid. Pyase Ke Pas Raat Samundar PaDa Hua is written by Iqbal Sajid. Enjoy reading Pyase Ke Pas Raat Samundar PaDa Hua Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Iqbal Sajid. Free Dowlonad Pyase Ke Pas Raat Samundar PaDa Hua by Iqbal Sajid in PDF.